Click Tv
عبدالغنی محمدی
خانہ کعبہ خانہ خدا ہے ۔یہ زمین پر الله پاک کا سب سے پہلا گھر ہے ۔ اس کے بارے میں قرآن مجید
میں آیا ہے کہ یہ بہت مبارک اور بابرکت جگہ ہے ۔ اس میں تمام لوگوں کی ہدایت کا سامان ہے اور
یہ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے ۔ حج و عمره کے لئے لوگ اس گھر کی زیارت کا قصد کرتے
ہیں۔ یہ لوگ الله تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اس گھر کو بسانے اور آباد کرنے کو جاتے
ہیں ۔ یہ لوگ حضرت ابراہیم کی دعا پر لبیک کہتے ہوئے اس سفر مقدس کا عزم کرتے ہیں ۔ ان
نے مہمان نوازی کو لوگوں کی خدمت کرنا الله پاک کے مہمانوں کی خدمت کرنا ہے ۔ حضور
مسلمان کے بہترین اخلاق میں شمار کیا ہے ، مہمان نوازی کرنے والے کو الله کا دوست بتایا ہے ،
اس کے لئے عرش کے سایہ کا وعده ہے ۔ مہمان نوازی کرنے والے کے رزق ، مال اور اولاد میں
برکت ہوتی ہے ۔ لیکن جو لوگ الله کے مہمان ہوتے ہیں ، الله کے گھر کو بسانے اور آباد کرنے کی
نیت سے سفر کرتے ہیں ، رسول الله کے بقول ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جو تمام گناہوں سے پاک
صاف ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں کی مہمان نوازی اور خدمت کا کتنا ثواب ہوگا ۔
کی آمد سے قبل آپ کے خاندان قریش کی اس حوالے سے شہرت تھی کہ وه حاجیوں رسول الله
اور خانہ کعبہ کی خدمت کیا کرتے تھے ۔ آپ کے دادا قصی نے مکہ معظمہ میں مشترکہ حکومت
کی بنیاد رکھی ۔ اس کے بعد حجاج کی خدمت ، بیت الله کی دیکھ بھال اور قبائلی زندگی کی
ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف شعبے قائم کیے ۔ان میں بعض شعبے صرف خانہ کعبہ
اور اس کی خدمت کے لئے خاص تھے ۔ خانہ کعبہ کی دیکھ بھال ، حفاظت و دربا نی کا شعبہ حجابہ
، خانہ کعبہ کی چابیوں کا منصب سدانہ ، حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب سقایہ ، حاجیوں کے لئے
کھانے کا بندو بست کرنے کا شعبہ رفاده یہ سب آپ نے قائم کیے ۔
حجاج کی بہبود کے لیے انہوں نے قریش کو یہ شعور دیا کہ وه اپنے آپ کو الله کے گھر کے خادم
اور حجاج کو الله کے مہمان سمجھیں۔ انہوں نے پانی کی فراہمی کا نظام بہتر کیا اور قریش کے لیے
ضروری قرار دیا کہ وه چنده جمع کر کے ایام حج میں حاجیوں کی ضیافت کیا کریں۔ چنانچہ تاریخ و
سیرت کی کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ قریش کے لوگ خانہ کعبہ کی دیکھ بھال ، حفاظت اور
نظم و ضبط میں بہت پیش پیش رہا کرتے تھے ۔ قریش کے سردار خانہ کعبہ کی صفائی خود کیا
کرتے تھے اور اس کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے ۔ ایام حج میں اپنے بہترین جانور تک ذبح کیا
کر دیتے تھے تاکہ حاجیوں کی مہمان نواز ی کی جاسکے ۔
قصی نے اس سلسلے میں کچھ کا م خود کرنے کا بیڑه اٹھایا ۔ قصی وه پہلے شخص تھے جنہوں نے
ایام حج میں مزدلفہ میں مشعر الحرام میں روشنی کا انتظام کیا ۔ سقایہ ” حاجیوں کو پانی پلانا ” اور
کے پردادا رفاده ” حاجیوں کو کھانا کھلانے کاا نتظام کرنا ” یہ کام اپنے ذمے لیے ۔رسول خدا
حضرت ہاشم نے اسی منصب رفاده اور سقایہ کو نہایت خوبی سے سر انجام دیا ۔ آپ بہت زیاده مہمان
نواز تھے ۔ ایک سال مکہ معظمہ میں قحط پڑگیا ، آپ ملک شام سے خشک روٹیاں خرید کر اونٹوں
پر لاد کر ایام حج میں مکہ پہنچے اور روٹیوں کا چورا کرکے اونٹوں کے شوربے میں ڈال کر ثرید
بنایا اور زائرین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا ۔ اس دن سے ان کو ہاشم روٹیوں کو چوره کرنے والا کہنے لگے ۔ ہاشم بہت مالدار تھے ، حاجیوں کی خدمت کے لئے وه اپنے سے زر کثیر خرچ کرتے
تھے ۔
رسول الله کے خاندان قریش اور بعد ازاں بنوہاشم کی حاجیوں کی اس خدمت کی شہرت پورے عرب
میں تھی ۔ الله تعالیٰ نے اس گھر کی خدمت کی وجہ سے ان کو پورے عرب میں عزت اور شہرت
سے نوازا تھا ۔ پورے عرب میں اسی وجہ سے ان کی عزت تھی ۔ اور اسی خدمت کی وجہ سے الله
پاک نے ان کی تجار ت میں برکت عطا کردی تھی ۔ بھوک و افلا س کی زندگی گزارنےوالے لوگ
اس گھر کی خدمت کی وجہ سے پورے عرب میں خصوصی اعزاز و اکرام کے مالک ہوئے ۔
رسول الله جب تشریف لائے تو آپ نے خانہ خدا کی خدمت اور الله پاک کے مہمانوں کی ضیافت
کے ان مناصب کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ ان میں مزید بہتری فرمائی ۔ آپ کے آخری حج کا واقعہ
ہے کہ بنو عبد المطلب قریش قبیلہ میں سے خالص آپ کا خاندان جن کے حصہ میں حج کی مختلف
خدمات میں سے پانی پلانے اور کھانا کھلانے کی ذمہ داری تھی ۔ وه اس ڈیوٹی کو سر انجام دے
ظہر کی نماز کے بعد بنوعبد المطلب کے پاس تشریف لے گئے۔ وه حجاج کرام کو رہے تھے ۔ آپ
نے فرمایا : بنو عبدالمطلب تم لوگ پانی کھینچو۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا زمزم کا پانی پلارہے تھے۔ آپ
کہ پانی پلانے کے اس کام میں لوگ تمہیں مغلوب کردیں گے تو میں بھی تم لوگوں کے ساتھ کھینچتا –
کو خود پانی کھینچتے ہوئے دیکھتے تو ہر صحابی پانی کھینچنے یعنی اگر صحابہ کرام رسول الله
کی کوشش کرتا۔ اور اس طرح حجاج کو زمزم پلانے کا جو شرف بنو عبد المطلب کو حاصل تھا اس
کو ایک ڈول پانی دیا۔ اور آپ کا نظم ان کے قابو میں نہ ره پاتا – چنانچہ بنو عبد المطلب نے آپ
کی شدید خواہش تھی لیکن آپ کو دیکھ کر کہیں سارے نے اس میں سے حسبِ خواہش پیا۔گویا آپ
لوگ پانی بھرنے نہ لگ جائیں آپ نے اس کام کو نہیں کیا ۔
تمام گفتگوکا حاصل ہے کہ حاجیوں ، عمره کرنے والوں اور زائرین کی خدمت ایک ایسا کام ہے جس
کی وجہ سے الله پاک ر زق ، مال اور اولاد میں برکت عطاء فرماتے ہیں ۔ انسان کی عزت و عظمت
میں اضافہ فرماتے ہیں جیسا کہ قریش کی حیثیت خالص اس گھر کی خدمت کی مرہون منت تھی ۔
رسول الله کی آمد سے قبل بھی اس کام کو عظیم سمجھا جاتا تھا اور آپ کی آمد کے بعد بھی ، آپ
کی ذاتی خواہش رہی کہ اس عظیم خدمت کو سر انجام دیں ۔
حرم پاک اور یہ مقدس جگہیں اسلام کے شعائر میں سے ہیں ۔ ان کا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
ان کے احترام میں سے ہے کہ ان کی خدمت اور دیکھ بھال کی جائے ۔ ان کی زیارت کرنا بہت بڑے
ثواب کا کام ہے۔ ان کی خدمت کرنے والے لوگ بھی ان لوگوں کے ساتھ زیارت و عبادت میں برابر
کے شریک ہوتے ہیں جو حج و عمره کرنے جاتے ہیں ۔ کیونکہ الله کے نبی نے فرمایا کہ جو نیکی
کے کام میں دوسروں کی مدد کرتاہے وه اس نیکی میں اس کے ساتھ برابر کا شریک ہوتاہے ۔
اس لئے ایسا کوئی بھی موقع ملے اس کو اعزاز سمجھنا چاہیے ۔حج و عمره کرنے والوں کی خدمت
کا یہاں کوئی موقع ملے یا وہاں جا کر اس کو غنیمت سمجھ کر قبول کرنا چاہیے ۔ الله پاک ہمیں عمل
کی توفیق عطاء فرمائے ۔