Maharashtra

अयोध्या फैसला: भारतीय मुसलमानों के लिए मित्रता बढ़ाने का समय

Click Tv राम जन्मभूमि बाबरी मस्जिद मुकदमे में सुप्रीम कोर्ट के फैसले से पहले प्रसिद्ध मुस्लिम संगठनों ने “हर कीमत

Editor Editor

What does Maharashtra’s De-Radicalization Program hold for the Indian Muslim?

Click Tv - Tarushi Aswani Living in a time when multiple incidents of violence against Muslims across India are being

Editor Editor

(India) ATS’s Deradicalisation Programme: Police officers turned counsellors in Maharashtra; here’s how!

Click Tv On April 11, 2017, as dusk was settling over Aurangabad, policemen from Maharashtra’s Anti-Terrorism Squad (ATS) knocked on

Editor Editor

رام جنم بھومی بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل معروف مسلم تنظیموں نے “ہر قیمت پر امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کا عزم کیا تھا خواہ فیصلہ جو بھی ہو”۔ مسلم دانشورجنہوں نے ہندو اور مسلم دونوں فریقوں کو خوش کرنے کے لئے طویل مدت سے چل رہے متنازع معاملہ میں عدالت سے باہر مسئلہ کا حل نکالنے کا مطالبہ کیا تھا ، انہوں نے ملک میں دیرپا امن کی خاطر یہ زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کی اپیل کی تھی۔ تقریبا تمام مسلم تنظیموں نے رام جنم بھومی بابری مسجد متنازعہ اراضی کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری کرنے کا عزم کیا تھا۔ لیکن اب جبکہ ہندوستان کی اعلیٰ عدالت نے ہندوؤں کو وہ زمین دے دی ہے جس پر بابری مسجد کی عمارت تقریبا پانچ صدیوں سے کھڑی تھی ، تو متعدد سنی رہنما اور علما سپریم کورٹ کے فیصلے پر ‘احترام’ اور ‘عدم اطمینان’ کے مابین گھرے معلوم پڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالانکہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں مگر وہ ‘ناخوش’ ہیں اور اب کسی ایسی عدالت پر اعتماد نہیں کرسکتے جو ‘آستھا کو میرٹ پر’ ترجیح دیتا ہے ۔ ان میں سے بعض کے مطابق تو ایودھیا کا فیصلہ واضح ‘ناانصافی’ پر مبنی ہے ۔ مثال کے طور پر ، آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ کے ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ، مولانا سید اطہر علی ، ممبئی کے مرکز المعارف ایجوکیشن اور ریسرچ سنٹر کے سربراہ مولانا برہان الدین قاسمی اور اقراء فاونڈیشن کے تحت چلنے والے دارالقضا کے ممبر مولانا شعیب کوٹی ان مولویوں میں سے ہیں جو ایسا نظریہ رکھتے ہیں ۔ در حقیقت سنی مسلم رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد جن سے توقع تھی کہ وہ وسعت قلبی سے اس فیصلے کا خیرمقدم کریں گے خواہ یہ ان کے حق میں ہو یا نہ ہو لیکن اس کے برعکس انہوں نے بابری مسجد کی زمین کے نقصان پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو فیصلہ سے قبل یہاں تک تجویز پیش کر چکے تھے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں آتا ہے تو وہ ہندوؤں کویہ زمین بطور تحفہ دینے پر راضی ہوجائیں گے اور ایسا کرتے وقت وہ دوسری فریق پر کسی طرح کی کوئی شرط بھی نہیں رکھیں گے ۔ لیکن خیر سگالی کا یہ اشارہ جو ہندوستان میں ہندو مسلم تعلقات کا ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا تھا اب مندر کے حق میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد مفقود دکھائی دے رہا ہے ۔ اس کا اندازہ ایودھیا اراضی تنازعہ کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہندوستان کے متعدد سنی اسلامی علماء اور رہنماؤں کے مزاج سے لگایا جاسکتا ہے۔ انہیں اس بات کا احساس ہےکہ اعلیٰ ترین عدالت نے انھیں مایوس کیا ہے۔ مثال کے طور پر — آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) نے واضح طور پر اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے ، اگرچہ انہوں نے نظرثانی کی درخواست داخل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (اے آئی ایم ایم)، ممبئی میں واقع رضا اکیڈمی ، انجمن اسلام ، جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے کچھ ممبران اور حضرت نظام الدین اولیا درگاہ کے کچھ خدا م ہندوستان کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی۔ مسٹر ڈوبھال ، ممتاز مسلم رہنما اور وشو ہندو پریشد کے ممبران کی طرف سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا ، جس میں کہا گیا کہ “اس اجلاس میں شرکت کرنے والے اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ کچھ داخلی اور بیرونی ملک دشمن عناصر ہمارے قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کے لئے موجودہ صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتی ہیں’’۔ یہ بالکل واضح ہو چکی تھی کہ اگرچہ مسلم فریق یہ مقدمہ جیت لیتی تب بھی ہندوستانی معاشرے میں کچھ ایسے عناصر موجود ہوں گے جو اسے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر استعمال کریں گے ، اور اس طرح فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے کا باعث بنیں گے۔ لہذا اس میٹینگ میں رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرنے کا عزم کیا اور ملک کے تمام باشندوں سے اپیل کی کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری کریں ، اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ “قومی مفاد دیگر تمام امور پر فوقیت کا درجہ رکھتا ہے’’۔ ایک طرف اس میٹینگ میں شریک ہونے والے رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرنے میں ذمہ داری ، حساسیت اور تحمل کا مظاہرہ کیا تو دوسری طرف مسلم تنظیم جمعیت علمائے ہند (جے یو ایچ) نے اس فیصلے سے عدم اتفاق کا اظہار کیا اور اسے “ناانصافی” قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اس میں “حقیقت اور ثبوت کی کھلی توہین” تھی۔ لہذا اس میٹینگ میں شرکت کی دعوت قبول نہیں کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمعیۃ علمائے ہند امن کی دعوت دینے ، سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام اور مکمل تعاون کرنے کی یقین دہانی کرانے میں پیش پیش تھی۔ جمعیۃ نے “کمیونٹی کو مزید یقین دہانی کرانے” کے لئے مرکزی نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ اس طرح ایودھیا سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہندوستانی مسلم قیادت میں دو نقطہ نظر سامنے آئے ہیں۔ ایک نظریہ کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا مکمل احترام اور غیر مشروط تعاون دیا جائے تو وہیں دوسرا نظریہ اس فیصلہ کو چیلنج کئے بغیر عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ مؤخر الذکر کا مذہبی نقطہ نظر یہ ہے کہ درو دیوار ایک مرتبہ مسجد ہو گئی وہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلامی شریعت کے مطابق صرف در ودیوار ہی نہیں بلکہ زمین بھی تا ابد مسجد کہلائے گی جس پر بابری مسجد کی عمارت قائم تھی ۔ وہ مانتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں مسجد تھی وہ آفاقی حرمت کا حامل ہے اور ہمیشہ کے لئے مقدس رہے گی ۔ لیکن اس نظریہ کے علما یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ ایک ڈھانچہ جس پر تنازع ہو وہ اسلامی عبادت کے لئے کس طرح مناسب ہوسکتا ہے۔ اس کا جواز اسلامی شریعت کی روشنی میں بھی نہیں ملتا جس شریعت کے مقاصد کی بنیاد پانچ اہم اور نیک امور کے حصول پر مبنی ہے ، جس میں سب سے اعلی اہمیت کا حامل جان کا تحفظ ہے۔ قابل ذکر بات ہے کہ شریعت اسلامیہ میں متعدد مسائل ہیں جن میں حالات زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے تبدیلی رونما ہوتی ہے اور اس طرح سہولت وآسانی کا دروازہ امت مسلمہ کے لیے ہر دور میں کھلا رہتا ہے۔جمہور فقہائے کرام کے نزدیک ان کے ساب بنیادی اسباب ہیں : ضرورت، حاجت ، دفع حرج ، عرف ، مصلحت ، ازالہ فساد اور عموم بلوی ۔ ضرورت کی صورت میں بعض ایسے مواقع ہیں جہاں جان ، مال ،عقل ، نسل اور دین کے تحفظ کے لیے مسائل میں آسانی اور سہولت کی راہ نکالنے کی گنجائش رہتی ہے۔ان ہی امور کا تحفظ در اصل شریعت کے مقاصد میں سے ہے ۔لہذا اگر بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی صورت میں اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ٹھیک ہے مسجد کی زمین ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے تب بھی ہمیں مقاصد شریعت پر نظر کرنی پڑے گی جن کا مقصد دین ، جان ، مال ، عزت وآبرو کی حفاظت ، دفع حرج اور سماج میں امن وشانتی کا قیام ہے ۔ ان مقاصد کی روشنی میں اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کو مان لیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے شریعت کے مقاصد کا خیال رکھا ۔یہ فقہی قاعدہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ الضرورات تبیح المحظورات یعنی ضرورتیں بعض ممنوعات کو بھی مباح کر دیتی ہیں ۔اس کا مطلب ہے کہ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے کو من وعن قبول کرنا چاہئے ۔اگرچہ اس فیصلے کو بعض ریزولیوشن مانتے ہوں لیکن پھر بھی یہ مقاصد شریعت کے عین مطابق اورجس سے ہندوستان کے ہزاروں لاکھوں شہریوں کی جانوں کا تحفظ ہوگا ۔اگر اسے قبول نہ کیا جائے تو تباہی اور ہزاروں جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے اور اس طرح یہ معاملہ مقاصد شریعت کی خلاف ورزی کا باعث ہوگا ۔

Editor Editor
- Advertisement -
Ad imageAd image