Click Tv

 جامعہ ملیہ میں ”مدرسہ ڈسکورسز“:  فکراسلامی کو درپیش چیلنجز اور فضلائے مدارس کا کردار

غور وفکر کرکے لیے دانش ورانہ لائحہ عمل مرتب کرنے پر زور

اسلام میں جمود نہیں ہے اور وہ جدید زمانے کا ساتھ دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء اور فقہاء وقت کے جدید مسائل اور چیلنجز کواس کی روشنی میں حل کریں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر نجمہ اختر، وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے شعبہ اسلامک اسٹڈیز اور انسٹی ٹیوٹ آف ریلیجس اینڈ سوشل تھاٹ، نئی دہلی کے اشتراک سے منعقد یک روزہ سیمپوزیم بہ عنوان ”فکراسلامی کو درپیش چیلنجز اور فضلائے مدارس کا کردار“ کے افتتاحی پروگرام میں کیا۔ انہوں نے منتظمین کو اس اہم پروگرام کے انعقاد پر مبارک باد دی اور امید ظاہر کی کہ اس طرح کے پروگرام ملک کی دیگر جامعات میں بھی ہونے چاہیے۔

پروفیسر اختر الواسع نے اپنے صدارتی خطبہ میں فرمایا کہ موجودہ دور میں اسلام،مسلمانوں اور مدارس پر بہت سے اعتراضات کیے جا رہے ہیں، اس وقت فارغین مدارس اور علمائے وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس غلط فہمی کو دور کر یں اور اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں۔

پروفیسر محمد اسحق،صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اورفرمایا کہ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر گفتگو کی جائے نیز علماء اور مفکرین کے ذریعے اس پر غور وفکر کرکے کوئی دانش ورانہ لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔

مہمان اعزازی پروفیسراقتدار محمد خان،سابق صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیزاور ناظم دینیات نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ مسلمانوں کو اپنے ماضی سے سبق لینا چاہیے اوردینی و دنیاوی دونوں علوم میں ترقی کرنی چاہیے تاکہ وہ عہد عروج کی طرح ایک بار پھر دنیا میں قیادت کر سکیں۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے کلیدی خطبہ میں فرمایا کہ مسلمانوں کو مغرب کے افکار ونظریات کا مطالعہ کرنا چاہیے اور ان کو ان ہی کے انداز میں جواب دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں مدارس کے طلبہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پروگرام کا آغاز منور کمال کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر وارث مظہری نے کی نیز انہوں نے ”مدرسہ ڈسکورسز“ کے اغراض و مقاصد سے سامعین کو متعارف کرایا۔پروفیسر سید شاہد علی نے آخر میں کلمات تشکر پیش کیے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here