Click Tv
بعض لوگ جو خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور معصوم لوگوں کا قتل کرتے ہیں اوراسی طرح مذہبی مقامات پر حملہ کرتے ہیں ، قرآن و سنت یا اسلام کی روسے ان مظالم کا جواز ناممکن ہے۔ لیکن اس طرح کی تصویر مخلص مسلمانوں کے لئے واقعی تکلیف دہ ہے اور ہمیں شرم و عار دلاتی ہے۔ اس معاملہ میں بیرونی طاقتوں کی منظم سرگرمی اور مکاری اس افسوسناک امر کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملے جو اسلام کی غلط تشریح و ترجمانی کر رہے ہیں وہ عالم اسلام کیلئے ماضی میں صلیبیوں اور منگولیوں کے حملے سے کہیں زیادہ خطرناک اورنقصان دہ ہیں۔ اس طرح کے ظلم و ستم اور قتل عام کا مطلب اسلام کی شبیہ کو مسخ کرنا ہے۔
میری مخلصانہ رائے میں، اس غلط فہمی اور غلط ترجمانی کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ جو اس طرح کے واقعات کا باعث ہے وہ جرأت و بہادری کا تصور ہے جسے عقل و دانش کی گہرائیاں تشکیل دیتی ہیں، جو مودہ دور میں غلط کا نتیجہ ہیں ۔ بالفاظ دیگر جس احساس کو اللہ نے انسانی فطرت میں ودیعت کیا ہے اسے نہ تو صحیح طور سے سمجھا جارہا ہے اورنہ صحیح طورسے استعمال کیا جارہاہے ۔ ایک مومن کے دل میں فطری طورپر ہمت و بہادری کے احساسات ہونے چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو بصیرت و حکمت کا بھی مظاہرہ کرنا چاہئے۔ تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے دین کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے گردو پیش کے لوگوں میں اعتماد و حوصلہ افزائی کیلئے ایک حقیقی موقف کا ہونا ضروری ہے ۔ نیز یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کے مشروع حدوں کی تحقیق صرف قانونی طریقے سے ممکن ہے۔ بالفاظ دیگر حقیقی جرأت و بہادری مسلمانوں کی حفاظت میں مضمر ہے جو ان کے اپنے اقدار کی دفاع میں ہے ۔ مسلمانوں کو مصائب پر صبرکرتے ہوئے انہیں ایک واضح اور صحیح موقف کا مضبوط یقین ہونا چاہئے نیز اس راستے میں درپیش ہونے والے تمام مشکلات کا سامناکرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں جب ہم زمانہ نبی ﷺ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہیکہ جن لوگوں نے انسانی تکبر کو چھوڑدیا انہوں نے ہی تیرہ سال کی مدت کو برداشت کیا جوایک معمولی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
معزز صحابہ کرام اکثر اوقات خداکے لامتناہی طاقت و قوت پر آنسو بہاتے رہتے تھے ۔ اللہ نے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کو انسانیت کی حفاظت کیلئے مبعوث فرمایا اور ان لوگوں کے ماضی کی غلطیاں سداھارنے کیلئے جو ان پر ایمان رکھتے ہیں ۔ پھر اس سے پہلے جس حکمت کو وہ نہیں سمجھ سکے تھے اس کی تفہیم اور تلقین کے لئے۔ انہوں نے کہا ’’اے ہمارے پرور دیگار تو کتنا مہربان ہے ( تو اپنے بندوں کی غلطیوں پر سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا ہے ۔) ‘‘جیسا کہ تاریخ اسلام میں یہ بات موجود ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے کعبہ معظمہ کے سامنے سر اقدس سجدہ میں رکھا تو ظالم لوگ نافرمانی اور جہالت پر اتر آئے اور آپ کے سر مبارک پر اونٹ کی اونجھری ڈال دی ۔ یہ وہ سرکش لوگ تھے جو اسکے مستحق تھے کہ ان پر پتھر پھینکا جائے ۔ ان لوگوں نے آپ ﷺ پر متعدد بار سنگ باری کی ۔ اس کے باوجود نبی کریمﷺ نے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ’’ تم پر بھی سنگ باری ہو! ‘‘ اس کے برعکس ان لوگوں نے نبی کریم ﷺ کے چہرہ اقدس پر پتھر مارا ، آپکے دندان مبارک کو شہید کر ڈالا ، آپکے رخسار مبارک کو زخمی کر دیا، آپ کا جسم اطہر خون سے لہو لہان ہوگیا، پھر بھی آپ نے ان کے لئے بد دعا نہیں کی، بلکہ آپ نے اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور رب کی بارگاہ میں عرض کیا ’’اے اللہ میری قوم کو ہدایت عطا فرما کیونکہ وہ لوگ مجھے نہیں جانتے ہیں !‘‘۔
مندرجہ بالا حدیث کی تفصیل اس طریقے سے کی جاسکتی ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ فرما رہے ہیں کہ اگر وہ میرے مقصد کو جان لیتے اور یہ بھی جان لیتے کہ میں کتنا ان کا خیال رکھتا ہوں تو وہ ہرگز ایسا نہیں کرتے ۔
قرآن کریم نبی پاک ﷺ کی صفت بیان کرتا ہے: ’’پھر شاید آپ ان کے پیچھے افسوس سے اپنی جان ہلاک کر دو گے اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ جو کچھ زمین پر ہے بے شک ہم نے اسے زمین کی زینت بنا دیا ہے تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں کون اچھے کام کرتا ہے۔ اور جو کچھ اس پر ہے بے شک ہم سب کو چٹیل میدان کر دیں گے ‘‘۔
(الکھف)
وہ فخر انسانیت جس نے دلوں پر فتح حاصل کی اور نرم دلی کا درس دیا ، جس نے ہر ایک کو حقیقی معنوں میں انسان ہو نے کی رہنمائی عطا کی اور مالک مختار ہونے کے باوجود اپنے مخالفین کے غصہ پراپنے غصہ کا رد عمل ظاہر نہیں کیا، اور بالخصوص کبھی بھی ان قبیح چیزوں اور برے اعمال میں سے کسی کا سہارا نہیں لیا جو ہمارے زمانے میں عام ہیں۔ حتی کہ ابو جہل جس نے پندرہ سال تک ان کی مخالفت کی، مگر نبی پاک ﷺ نے اس طرح کی ایسی کوئی چیز نہیں کہی کہ ’’خدا تم کو ذلیل کرے ‘‘ ۔ جب انہوں نے ایسا نہیں کہا تو ایک دن ایسا بھی آیا کہ ابو جہل کی بیٹی جویریہ اور اس کا بیٹے اکرمہ نے اسلام قبول کرلیا اور اسکے بعد وہ ایک مثالی زندگی گزارنے لگے ۔
اگر رسول اللہ ﷺ نے ذرا سا بھی اسکی طرف اشارہ کیا ہوتا تو وہ جانباز مسلم مجاہدین پہلے دل و جان سے لڑتے یہاں تک کہ شہید ہوجاتے ۔ لیکن انہوں نے صبر کیا اگرچہ انہیں قیدی بنایا گیا دردناک اذیتوں کا سامناکرنا پڑا پھر بھی انہوں نے کبھی بھی ذاتی رد عمل یا جذباتی بدسلوکی کا مظاہرہ نہیں کیا جو ان کی امانت داری کو ٹھیس پہنچا سکتا تھا۔ اور بالخصوص انہوں نے کبھی کسی پہ ظلم و ستم نہیں ڈھایا جس کا ہم آج ارتکاب کررہے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ دلوں اور عقلوں کی فتح یابی کا راستہ ہے جو ہمارے لئے ابدی نعمت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ آج اس چیز کی ضرورت ہیکہ ہم لوگوں کے ساتھ شفقت اور رحم کا سلوک کریں ۔