_________________________ بہار کی انتخابی مہم میں تیزی, مسلم ووٹر ابھی بھی تقسیم اشہر ہاشمی

0
103

بردوان 26 اکتوبر( نیا سویرا)
بہار اسمبلی کیلئے پولنگ کے پہلے مرحلے کا وقت قریب آیا گیا ہے۔
تمام سیاسی پارٹیاں پوری شدت سے انتخابی مہم میں ہیں۔ للک ڈاؤن کے ذریعہ آئی ہوئی اقتصادی سستی، منفی شرح ترقی، بی روزگاری اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ خالی ہوتے خزانوں اور سنبھالا ملنے کی امیدبکری ہر دن ٹوٹنے کے درمیان یہ پہلا اسمبلی انتخاب ہے جو یہ طے کرے گا کہ کیا عوام اتنے بیدار ہیں کہ وہ اچھی حکمرانی اور مذہبی جنون کو بڑھاوا دینے کیلئے انسان دشمن سرکاری اور پارلیمانی اقدامات کے درمیان فرق کر سکیں۔
بہار میں مقابلہ سیدھے حکمران قومی جمہوری اتحاد اور ترقی پسند اتحاد کے درمیان ہے۔
حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی پارٹیاں جنتا دل یو اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہیں جب کہ اپوزیشن اتحاد کی پارٹیاں راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس ہیں۔
چونکہ ہندوستان چھوٹی، علاقائی پارٹیوں کو ختم کر کے دو جماعت نظام کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے اس لیے ایک واضح امکان ہے کہ معلق اسمبلی یا چھوٹی پارٹیوں کی گھس پیٹھ کا ماحول نہیں بن سکے گا۔جیت جس کی ہو سیدھی اور واضح ہوگی۔
آر جے ڈی لالو پرساد یادو کے آٹھویں پاس کھلاڑی بیٹے ٹیجسوی یادو کی قیادت میں پر جوش نظر آ رہی ہے۔ گو کہ تےجسوی کی قیادت اور قائدانہ صلاحیتوں پر سوالات ہیں، لوگ ان کی اکڑ کا تذکرہ کرتے نہیں رکتے مگر متبادل تلاش کرتی ہر نظر آر کے ڈی کانگریس کے مہ گٹھ بندھن پر آ کر رکتی ہے ۔ نجی محفلوں میں اس خیال کا اظہار کرنے والوں کی کمی نہیں کہ کانگریس عوامی پسند میں واپس آ رہی ہے مگر کانگریس کے پاس سیٹوں کی تقسیم میں اتنی طاقت ہے نہ آ سکتی ہے وہ اقتدار پر دعویٰ کر سکے ، وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی۔ کوئی طاقت بنے گی تو آر ہے ڈی کے ساتھ اور آر جے ڈی کا چہرہ تیج سوی کا ہے۔
حکمران اتحاد میں نتیش کمار برقرار ہیں مگر بہار کے عوام خاص کر شدت پسند ہندو ووٹر تبدیلی چاہتا ہے۔ عجیب و غریب سوچ یہ ہے کہ جس شدت پسند ہندو ووٹر کی نگاہ میں نریندر مودی ہندوستان میں قیادت کا سب سے مقبول چہرہ ہیں وہ بھی بہار میں بی جے پی آر ایس اس کی حکومت نہیں چاہتا۔
ایک اُبر ڈرائیور اشوک سنگھ نے، بانکی پور سے پھلواری شریف تک کی مختصر مسافت کے دوران ہندو ووٹر کے دماغ میں در تک اترنے کا کو موقع فراہم کر دیا وہ اہم تھا۔ ہم نے اس سے انتخابی امکانات پر رائے چاہی۔ اس نے کھل کر آر جے ڈی کی تائید کی مگر اسی کے ساتھ ذرا اور کھودنے پر نیچے سے مودی کا اثر نکل آیا۔اشوک سنگھ اور اس طرح کے کم از کم تین ہندو فارورڈ نوجوان ایسے ملے جن کی نگاہ میں نریندر مودی الٹی مٹ لیڈر ہیں مگر و بھی بہار میں آر ایس ایس کی حکومت کے خلاف ہیں۔پوچھنے پر کوئی واضح سبب نہیں بتاتے مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں۔
بیشتر ہندو لڑکوں کی نگاہ میں نریندر مودی سب سے بڑے اور معتبر لیڈر ہیں مگر ان کی حکومت کو وہ مرکز تک محدود دیکھنے کے متمنی ہیں ۔ برانڈ مودی کی ایک صورت یہ نظر آئی کہ کسان بل کے خلاف پپو یادو کی پارٹی کے کارکنوں پر جملہ آور بھگوا لٹھ بازوں نے بھی پولس کے موجودگی میں اور پٹائی کتائی کا جوش نکال لینے کے بعد نریندر مودی زندہ باد کے نعروں سے ہی اس حملہ پر اپنے دستخط کئے۔
عام لوگوں میں دونوں اتحاد کو پر زور تائید کرنے والے پر جوش ہیں۔ بطور پارٹی آر جے ڈی کو اور بطور لیڈر نتیش کمار کو ماننے والے کنفیوزن بڑھا رہے ہیں۔
مسلمانوں میں بطور قومی متبادل کانگریس کو کمزور خاموش تائید بھی اپنے ہونے کا یقین دلا تی ہے ۔
عہدوں پر موجود تعلیم یافتہ اور دولت مند مسلمان نتیش کی حمایت میں ہے اور اس کا اس کے پاس جواز بھی ہے۔ عام مسلمان نتیش کی تائید سے دور جاتا نظر آیا۔لیکن مشکل یہ ہے کہ آر جے ڈی کی برتری ماننے کے باوجود عام مسلمان تج سوی پر بھروسہ نہیں کر رہا ہے۔ یہ کنفیوزن ابھی تک ہے مسلم ووٹر کے راشٹریہ جنتا دل کو حمایت میں جانے کی صورت زیادہ ہے ۔
اس گومگو سے فائدہ اٹھانے کیلئے کچھ شدت پسند، شخصیت پرستی پر مبنی پارٹیاں باہر سے بہار میں آئی ہیں اور کچھ لوگوں خاص کر ماب لنچنگ، پنچایت جیسے عدالتی فیصلوں ، سرکاری جارحیت، اکثریتی اقتدارِی ضد، مذہبی جنون مسلسل بڑھانے کی طرف مائل جملہ بازی اور قانون ساز اداروں میں دکھائی جانے والی زد سے مایوس نوجوانوں کا ایک طبقہ انکے ایجنڈے کو سمجھے بغیر ان کی طرف مائل بھی ہے۔جن حلقوں میں جنوب کی مسلم پارٹیاں اپنا اثر بڑھا رہی ہیں وہاں مسلم ووٹوں کی بے رحمانہ تقسیم اور عوامی فیصلہ پر ان کے منفی ڈھنگ سے اثر انداز ہونے کی اہلیت یقینی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here