یہ فقیروں کا راستہ ہے میاں اسد عباس خان

0
447


ہماری جدید شعری متھ آج کیا ہو سکتی ہے ؟
اور ہمارا جدید شعری رویہ آج کیا ہو سکتا ہے ؟
ظاہری بات ہے کہ آج کے بدلتے ہوئے سماجی تقاضوں کے تناظر میں ہمیں ایک جدید شعری متھ اور نظریہ کی ضرورت ہے
رو و قبول کے پرانے نظریات اور افکار ہیں
ہماری زیادہ تر شاعری انہی نظریات روایات اور راستوں پر سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہے
راستہ اور روایت وہی ہے جسے ہم نئی شاعری کا نام عرصہء دراز سے دیتے چلے آ رہے ہیں
پچھلی صدی کی شاعری میں اور آج کی شاعری میں ایجاب و قبول اپنی جگہ، مگر آج کی شاعری میں رد و قبول اور لسانی نظریات اپنی جگہ
آج کی ہماری زیادہ شاعری انہیں پرانے اصولوں کی بناء پر کھڑی ہوئی ہے
سوچنا چاہیے!

میں سارتر اور ڈیکارٹ کے نظریات ” میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں ” سے کہیں آگے شاعری کا سفر دیکھتا ہوں
سارتر اور ڈیکارٹ نے عمروں کے فلسفے میں یہ بات کہی جبکہ غالب نے محض ایک شعر میں یہ بات کہہ دی
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

اور خود بقول غالب
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
سارتر اور ڈیکارٹ کی بھی ایک فکر اور سوچ تھی جو انہوں نے بیان کی اور غالب کی بھی اپنی فکر اور سوچ تھی
انہوں نے جو غور و خوض کیا وہی سوالات ان کی شاعری میں کھڑے ہو گئے
ہماری تازہ فکر سائنس آج تک ان سوالات کا تعین نہیں کر سکی اور نہ ہی کر سکتی ہے کیا ایسے میں بھلا شاعری محض ان چیزوں اور سوالات کا تعین کر سکتی ہے
شاعری سائنس تو نہیں
مگر میرے نزدیک شاعری کی اپنی سائنس ہوتی ہے
یہی سائنس خالد ملک ساحل کی شاعری میں کارفرما ہے ان کی شاعری میں کائنات پر ان گنت سوال اٹھتے چلے جاتے ہیں اور ان سوالات کے جواب خود ان کی ہی شاعری سے ڈھونڈے جا سکتے ہیں
ہمارے دور کے خوبصورت ترین شاعر اور مفکر جناب نذیر قیصر نے کسی جگہ لکھا ہے کہ اگر سوال پیدا نہ ہوں تو جواب نہیں ڈھونڈے جا سکتے
خالد ملک ساحل ایک مشاق اور خلاق تخلیق کار ہیں کہ حرف حرف ان کی شعریات میں کائنات ،انسان اور خدا کے باہمی تعلق پر سوال اٹھتے ہیں اور خالد کے لاشعور اور ان کی شعری سائنس سے ان کے جوابات مل جاتے ہیں
میں خلا ہوں نہ میں خلا میں ہوں
میرے چاروں طرف خدا ہے میاں
میں بھی حضورِ یار بہت دیر تک رہا
آنکھوں میں پھر خمار بہت دیر تک رہا
میں چشمِ دید گواہوں کو ساتھ لایا ہوں
تری زمین کا پہلا پڑاؤ تھا مجھ میں
نہیں نہیں تری باتوں سے میں نہیں ٹوٹا
ترے سوال سے پہلے تناؤ تھا مجھ میں

خالد ملک ساحل کی یہ فلاسفی سوال در سوال کھل رہی ہے انسان کائنات اور خدا کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے ان کی شاعری کی بنیاد ہی انہیں سوالات اور تفکرات پر استوار ہوتی ہوئی نظر آتی ہے کہ وہ کائنات کو ایک عام آدمی کی آنکھ سے جہاں دیکھتے ہیں کہ ایک عام آدمی کے اس سماج میں پوری کائنات سے متعلق کیا مسائل ہیں اور وہ مسائل کیوں ہیں وہاں ایک صوفی کی آنکھ سے بھی اس کائنات کو دیکھتے ہیں اور کائنات کا گہرا مطالعہ و مشاہدہ کرتے ہیں تو ان کی شاعری میں سوالات کا ایک نیا جہان آباد ہونے لگتا ہے
ایک سوال سے کئی سوال جنم لیتے ہیں اور ان کے جواب ابھرنے لگتے ہیں اور نیا سورج ہے جو ان کی شاعری سے طلوع ہوتا ہے
سماج سے لیکر ادب ، مذہب ، سائنس ، فلسفہ ، اور سب کچھ ان کی شاعری میں یکجا ہو گیا ہے
مہہ و نجوم کی وہ بھی دکان کرنے لگا
فقیر اپنی فقیری پہ مان کرنے لگا
ساحل کی شاعری بھی ایک لحاظ سے مہہ و نجوم کی دکان ہےکہ اس فقیر کے پاس بھی بس بھیدوں کے مہہ و نجوم ہیں
اور یہ ہر لحظہ بھید کھول کھول کر بتاتے چلے جا رہے ہیں

کسی ولی کے تصور سے بن گئے ہوں گے
وہ سارے رنگ جو تاثیر میں لگے ہوئے ہیی

کہ یہ چہار سمت روشنی کرتے چلے جائیں اور روشنی سےکام لیتے چلے جائیں

میں وہ درویش ہوں فقیروں میں
جو نمائش کبھی نہیں کرتا

حرف سے روشنی کر دکھانا اور اپنے آپ کو چھپانا سبھی کے بس کی بات نہیں ہوتی
ایسے ہی تو بلھے شاہ نے نہیں کہا تھا کہ
چل اوئے بلھیا اتھے چلیے جتھے سارے انہے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں منے

میرے نذدیک ساحل کی شاعری میں یہ روشنی ایک کن فکانی عمل کا تسلسل رکھتی ہے اور اسی ترتیب سے یہ ظہور پاتی ہے
ساحل کی شعریات میں یہ معنوی ارتقاء اسی لحاظ سے وجود میں آتا ہے
کہ یہ کائنات عدم سے وجود میں آئی
دراصل یہ ان کا شعری منظر نامہ ہے جو انہوں نے معاصر شعراء سے ہٹ کر بنایا ہے
ان کی شخصی تہذیب ان کی اپنی زبان اور اسلوب سے بنی ہے اور پھر ان کی شخصیت ان کے شعر کی اسی آفاقی تہذیب میں ڈھل گئی ہے کہ یہ سر تا پا صرف اور صرف شاعر ہیں
اور ان کے لیے پوری کائنات مکان لامکان زمان لازمان جست در جست ارتقاء کے عمل سے گزر رہے ہیں
وہ حال تھا کہ اپنی بھی حالت نہیں رہی
اک شاخِ بے ثمر کو شجر کر رہا تھا میں
یہ معنوی تہہ داری اور اپروچ ان کی شاعری کو مختلف بنا دیتی ہے کہ کون ہے جو یہاں بے ثمر شاخ کو شجر بنانے کی قدرت رکھتا ہو مگر ساحل نے یہ نرالا کام کر دکھایا ہے
قدرت نے ان کو جب یہ قدرت ودیعت کی ہے تو پھر انہوں نے نئے آہنگ اور ڈھنگ سے کلام کیا ہے
کچھ بھی روا نہیں ہے ورائے حضور میں
لاریب بے ہنر کو ہنر کر رہا تھا میں

لاریب،،، کہ انہوں نے پھر تصدیق بھی کر دی ہے یہ ان کا فکری اور شعری اعتماد نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟
ان کی شاعری میں معنوی لسانی تہذیبی اور علمی ارتقاء موجود ہے
جس سے یہ اپنے آپ سے مخاطب ہیں اور کلام کر رہے ہیں
ایک صوفی کی طرح ان کی فکری کائنات بھی ، اور ان کی شعری کائنات بھی دوسرے لوگوں سے انتہائی مختلف اور منفرد ہے
کل میرے قتل کی تاریخ تھی مگر
دشمن کا انتظار بہت دیر تک رہا

حسین بن حلاج سے پوچھا گیا کہ عشق کیا ہے ( جب ان کو تختہ دار کی طرف لوگ لے کر آ رہے تھے تو یہ سوال ان سے ابوبکر شبلی نے کیا تھا
ابوبکر شبلی کا فرمان ہے کہ میں اور حسین حلاج ایک ہی چیز ہیں
اس نے راز ظاہر کر دیا اور میں چپ رہا ) تو انہوں نے فرمایا کہ عشق تم آج دیکھو گے
عشق تم کل دیکھو گے
عشق تم پرسوں دیکھو گے
پھر ان کو پھانسی دے دی گئی اور عشق آج ، کل اور پرسوں دیکھا گیا
خلیفہ وقت نے ان کی پھانسی کی تاریخ پہلے سے ہی مقرر کی ہوئی تھی
حسین حلاج کو پھانسی تو ہو گئی مگر وہ زندہ ہو گئے ،،
ساحل کی شعریات میں وہی صوفی روشنی ہے وہی درویشانہ تفکر اور طرزِ حیات ہے
کل شام میرے قتل کی تاریخ تھی مگر

مگر یہ کتنا انوکھا بھید ہے جو اس صوفی نے آشکار کر دیا ہے
سو ، ساحل کی شاعری اس تناظر میں نئے فکری ابعاد کھولتی ہے
عقل کی پرانی گتھیوں کو نئے سرے سے سلجھاتی ہے
تازہ تر شعر ان کی اب پہچان بن گیا ہے ان کی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ ان کے ایک ایک شعر کے کئی کئی شیڈز ہوتے ہیں جو وہ یکے بعد دیگرے کھولتے چلے جاتے ہیں
ایک رنگ سے دوسرا رنگ ابھر آتا ہے تو ان کے شعر میں ایک سوال سے دوسرا سوال جنم لے لیتا ہے

سن رہا تھا میں ساری دنیا کو
اپنی کوئی خبر نہیں آئی
دیدنی تھا وہ خواب کا منظر
نیند پھر رات بھر نہیں آئی
کوئی رستہ نہیں خلاؤں میں
آدمی ہے خدا سے الجھا ہوا

خالد ملک ساحل متنوع خیالات کو صور شعر میں پھونک دیتے ہیں
تو ان کی شعریات میں حیرت در حیرت انسان داخل ہو جاتا ہے اور باطنی روشنی میں سفر کی ابتدا ہونے لگتی ہے ہر شعر
شاعری جزو ِ زیست از پیمبری
کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے
کوئی سودا نہیں رہا سر میں
ایک درویش آ گیا گھر میں

یہ درویش خود خالد ملک ساحل ہیں کہ یہ کُن کہتے ہیں اور شعر ہو جاتا ہے شعر کو عدم سے وجود میں لاتے ہوئے خود انکشاف ِ ذات سے گزرتے ہیں
وہ انکشافِ ذات کا لمحہ تھا ، کھل گیا
شاید درونِ غار ، بہت دیر تک رہا
شاعر اور صوفی ہمہ وقت انکشافِ ذات سے گزرتے ہیں ، انکشافِ ذات ان کا تجربہ ہوتا ہے ، مشاہدہ بن جاتا ہے
جسے غالب نے اپنی عظیم شعریات میں مشاہدہٕ حق کہا ہے
اگرچہ ان کے نزدیک مشاہدہ حق کے معنی اور ہیں

حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر صوفی کی طلب کی انتہا ذاتِ باری تعالیٰ ہوتی ہے اور ہر صوفی اپنے الگ راستے کا تعین کرتا ہے اور اپنے رب تک پہنچتا ہے لیکن پہنچتا صرف کامل ہے ، ناقص نہیں پہنچ سکتا
یہیں سے دو بڑے نظریات وجود میں آتے ہیں
وحدت الوجود اور وحدت الشہود

اس آسماں کے ساتھ سفر کر رہا تھا میں
جس کو زمیں کے ساتھ بسر کر رہا تھا میں
اس رات اک چراغ بھی روشن نہیں ہوا
جس رات اپنے دل میں سحر کر رہا تھا میں

چند قدموں کی زمیں پر تو گزارا ہی نہیں
عشق کر ، جس کا کہیں کوئی کنارا ہی نہیں
حادثے ذات پہ گزرے تو ہمیں یاد آیا
وقت کے ساتھ کبھی وقت گزارا ہی نہیں
کچھ سال میری عمر کے ملتے نہیں مجھے
شاید میں لامکان سے گزرا ہوں بارہا

خالد ملک ساحل کی شاعری کی ایک خاص صفت یہ کہ ان کا ہر شعر قاری کو اس کی ذاتی واردات محسوس ہوتا ہے کہ خالد اپنے شعر میں جس جس نامعلوم مقام سے گزرتے ہیں ، قاری کو لگتا ہے کہ وہ بھی خود انہیں مقامات سے گزر رہا ہے یوں قاری ان کے حال میں شامل ہو جاتا ہے پھر ان کے حال کی گرہیں قاری پر اس طرح کھلتی ہیں کہ قاری حال سے قال کی طرف اور قال سے حال کی طرف ، یعنی معلوم نامعلوم ، موجود لا موجود کی طرف سفر کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ذاتی قلبی واردات کی بناء پر ایسے ہی شعر کو قاری اپنے باطن میں بسر کرتا ہے
یہ خالد ملک ساحل کے شعری نظام کی نئی ایجاد ہے جس کے یہ موجد بھی ہیں اور خاتم بھی ہیں
ان کی شاعری میں استعارے محض استعارے نہیں ہیں بلکہ ان کے استعاروں میں ایک پوری کائنات پوشیدہ ہوتی ہے
آسمان ، زمین ، چراغ ، رات ، عشق ، وقت ، جیسے استعارات سے جس طرح انہوں نے معنویت پیدا کی ہے یہ انہیں کا خاصا ہے
یہ نہیں کہ یہ الفاظ بطور استعارہ صرف انہوں نے استعمال کیے ہیں اور ان کے سوا کسی نے استعمال نہیں کیے
بلکہ انہوں نے نئی اختراع کے ساتھ اور نئے قرینے کے ساتھ استعمال کر کے ان الفاظ اور استعارات کو ابدیت عطا کر دی ہے
نئی شاعری کے یہ نئے استعارے ہیں
ہر عہد کی شاعری کے اپنے الگ لسانی اور شعری تقاضے ہوتے ہیں اور ہر صاحبِ طرز شاعر کا اپنا الگ لسانی اور شعری نظام ہوتا ہے اسی نظام سے وہ زبان کو وسعت دیتا چلا جاتا ہے
خالد نے بھی اسی طرح اپنے آہنگ ، اسلوب اور قرینے سے ممکنہ حد تک زبان کو وسعت دینے کی کوشش کی ہے
اس لیے خالد کی شاعری بالکل تر و تازہ شاعری ہے اور ان کا اسلوب بھی بالکل نیا ہے
طے ہےکہ جینوئن شاعر پامال راستوں سے گزر ہی نہیں سکتا
انہوں نے اپنے اسلوب میں زبان اور عشق کو ایک کر دکھایا ہے زبان دانی اور عشق ان کی شاعری میں برابر چلتے ہیں
ایک ایک شعر میں نیا منطقہ کھلتا ہے
زوال ِ عمر کا طرفہ بہاؤ تھا مجھ میں
مرے وجود سے پہلے کٹاؤ تھا مجھ میں

مشکل قوافی ردیف اور زمینیں انہوں نے تخلیق کی ہیں کہ یہ ان کی شعری اور شعوری ریاضت ہے ، ہونی بھی چاہیئے کہ ان کی ہر سانس شاعری میں نکل رہی ہے اس لیے ان کی شاعری میں ایک آفاقی سچائی پائی جاتی ہے
میں وحشیوں کے قبیلے میں خواب لایا تھا
اب اپنے ہاتھ سے آنکھیں بھی دان کرنے لگا

ستارا ٹوٹ کے چونکا گیا مجھے ساحل
میں جب بھی کبھی منظر پہ دھیان کرنے لگا

خالد ملک کائناتی شعور کے شاعر ہیں ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے یہ کینوس مکان سے لامکان تک اور زمان سے لازمان تک پھیلا ہوا ہے جیسا کہ انہوں نے کہا ہے
وقت کے ساتھ کبھی وقت گزارا ہی نہیں
یہ ان کا وقت پر تصرف اور شعر پر دسترس ہے کہ یہ وقت کو لاوقت میں تبدیل کر دیتے ہیں
اصل بات تو معنویت کی ہوتی ہے
کہ شاعر کو لفظ پر کس قدر قدرت حاصل ہے اور وہ کس قدر لفظ کو اپنی سہولت کے ساتھ استعمال کرتا ہے اور اس سے کتنے گہرے معنی نکالتا ہے
ایک صاحبِ بصیرت اور صاحبِ توفیق شاعر ہی ان دیکھے جہانوں سے گزر سکتا ہے اور لفظ سے نئی نوع کے معنی نکال سکتا ہے
موت نشے کی انتہا ہے میاں
نیند میں اس کا ذائقہ ہے میاں

کل نفس ذائقہ الموت
کی جمالیاتی تصویر اس شعر میں بن کر سامنے آ رہی ہے
موت کی جمالیات پر اس سے زیادہ خوبصورت کلام اور کیسے ہو سکتا ہے
گویا ایک ایسی کیفیت جو خود ساحل پر گزرتی رہی اسی کو انہوں نے شعر کر دکھایا اور اس کو ایک تازہ تر معنویت دی ہے کہ دراصل موت ہے کیا ؟
یہ ایک نئی معنوی نوع اور نوعیت ہے کہ انہوں نے موت کے ذائقے کو بھی ایک نیا ذائقہ بنا دیا ہے ، معنوی اعتبار سے ان کی ساری کی ساری شاعری کی الگ اور جداگانہ کم و کیف قاری کو اپنی گرفت سے باہر کسی بھی صورت میں نہیں نکلنے دیتی
اور ان کی تخلیقی سرشاری اور فراوانی قاری کو حیرت میں کلی طور پر مبتلا کیے رکھتی ہے
لطف یہ ہے کہ خود ساحل بھی نکتہ نکتہ حیرت کو شاعری بناتے چلے جاتے ہیں
ان کی شعریات میں ایک عجیب عالمِ حیرت کا سامنا ہونے لگتا ہے جب قاری ان کے شعری مقامات سے گزرتا ہے

اپنے آنسو ہیں تمہارے نہیں رو سکتا میں
آج آنکھوں سے ستارے نہیں رو سکتا میں
ایک تکلیف کا دریا ہے بدن میں لیکن
بیٹھ کر اس کے کنارے نہیں رو سکتا میں
میں ہوں مجذوب مرے دل کی حقیقت ہے الگ
لاکھ ہوتے ہوں خسارے، نہیں رو سکتا میں
جسم ہے روح کی حدت میں پگھلنے والا
ہوں شرابور ، شرارے نہیں رو سکتا میں
میں تماشا ہوں ، تماشائی ہیں چاروں جانب
شرم ہے ، شرم کے مارے نہیں رو سکتا میں
بدگماں ہونے لگا ہے یہ تیقن کا جہاں
مجھ کو افسوس ہے پیارے ، نہیں رو سکتا میں

خالد ملک ساحل نے ایک تازہ تر احساس دریافت بھی کیا ہے اور تخلیق بھی کیا ہےاور بہت ساری اشیاء کو ان کے مظاہر ِ فطرت کے لحاظ سے الگ معنوی تشکیل بھی دی ہے
نیا شاعر پرانی لفظیات اور مردہ لفظیات سے ہی نئے معنی پیدا کر لیتا ہے اور ہر قدم پر ساحل نے یہ کام معجز بیانی سے کر کے دکھایا ہے
یہ ایک نئی شعری متھ ہے جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق کی ہے
ہماری آئندہ کی شاعری کی متھ

ان کی یہ حیرت انگیز شاعری ہمارے آنے والے دور کی شاعری کی بنیاد ہے اور ایک نئے تہذیبی ، لسانی ، شعری اور عصری شعور کی علامت بھی ،
مابعد کی شاعری ، ماقبل کی یہ شاعری خالد کی انوکھی شاعری ہے انہوں نے موجودہ دور کو ایک نئی عمرانی کیفیت میں ڈھال دیا ہے
یہ ایک طرح سے نئی عمرانی تاریخ ہے جو انہوں نے رقم کی ہے
ہم نے ہر شعر میں بیتابی ِ دل باندھی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ لہجے کو سنوارا ہی نہیں

یہ ہے ان کا لہجہ ،
ان کے شعر کے طول وعرض میں یہی بیتابی دل کارفرما ہے جس سے یہ پئے در پئے شعر کہہ رہے ہیں اور ایسے ایسے چونکا دینے والے شعر کہہ رہے ہیں
زندگی تیرے لیے اور بھلا کیا کرتا
عشق کرنا تھا کیا ، اور میں کیا کیا کرتا

انہوں نے اپنی غزل میں جو مزاج تشکیل دیا ہے ، یہ نیا مزاج ہے اور نئے دور کے انسان کا مزاج ہے
کہ ان کی شاعری کسی بھی طرح روایتی شاعری نہیں ہے

اسالیبی اور موضوعاتی لحاظ سے ان کی شاعری کی تفہیم نئے شعوری پیمانوں سے کی جائے گی
یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ہر لفظ وسیع تر معنوں میں استعمال کیا گیا ہے
خالد ملک ساحل نئی شاعری اور نئے دور میں اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں
کیوں کہ ساحل منفرد اسلوب کے تازہ کار اور توانا ترین شاعر ہیں اور ان کی شاعری زمان و مکان کی معنوی پابندیوں سے بہت آگے نکل چکی ہے انہوں نے نئے دور کے انسان سے کلام کیا ہے اور نئے دور کا انسان ہی ان کا شعری مخاطب ہے خالد ملک ساحل کی شاعری جدید تر اردو غزل میں ایک حیرت زا اضافہ ہے اور ان کے تخلیقی کام کے سوا جدید دور کی غزل کی تاریخ کسی بھی طرح اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتی
خالد ملک ساحل نے اپنی شعریات سے جدید اردو غزل کو ثروت مند بنا دیا ہے اور ایک بڑا فنکار اس کے سوا کر ہی کیا سکتا ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here