Click TV Special
*سید عدنان مرتضٰی
افغانستان کے متعلق مختصر سی تحریر لکھی تھی جس پر کچھ تبصرے ملے جو (مختصر) کچھ اس طرح تھے
1 احمق۔ 2 منحوس۔ 3 فتح سے جل رہا ہے۔ 4 اسے غیر کے سامنے چھکنے کی عادت ہے 5 رانچی چلا جا (کنایہ ہے کہ پاگل خانے چلے جاؤ)۔ 6 اسلام کے خلاف بولتا ہے- 7 اہل حدیث ہے کیا- اسے حنفیوں سے چِِڑ ہے۔ 8 اسے اسلامی حکومت سے دشمنی ہے۔ اس نے آر ایس ایس جوائن کر لیا كيا۔ وغیرہ وغیرہ
یہ سارے تبصرے انکی جانب سے تھے جو عالم ہیں کچھ فاضل ہیں ان میں سے کچھ بڑے دینی مدارس میں پڑھ رہے ہیں کچھ پڑھا رہے ہیں، کچھ سے میں واقف ہوں اکثریت سے ناواقف۔
اسی پر میں نے ایک مختصر پوسٹ لکھی کہ “اختلافِ رائے کو برداشت کرنا سیکھیں، خاص طور پر نوفارغینِ مدارس میں اس کا فقدان ہے”
اگر اس موضوع پر میری سابقہ پوسٹ کا خلاصہ نکالا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ کسی بھی مسئلہ میں جذبات سے نہیں بلکہ سنجیدگی سے فیصلہ کریں۔
اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں، بلکہ ہمارے بڑے بزرگان اسی بات کی تعلیم دیتے آئے ہیں۔ اور اسی بات پر عمل نہ کرکے ہمارے ملک کے کچھ بڑے بھی جذبات میں بہہ گئے اور مبارکبادی کی وڈیو وائرل کر دی اور میڈیائی سرخی میں آگئے جو کہ واقعی ان بزرگ کا غیر دانشمندانہ قدم تھا۔
میں نے نہ اسلام کی مخالفت کی اور نہ اس کے احکامات کی، اگر مخالفت کی ہے تو ان اسلامی اصطلاحات کی جو طالبان کے حق میں استعمال کی گئیں۔ اور اب بھی میں اسے غلط ہی کہہ رہا ہوں۔
اسلامی جہاد، اسلامی حکومت، نظام خلافت، فتح مکہ، اور قرآن سے سورہ فتح اور سورہ نصر کی آیات سے استدلال (گویا ساری آیتیں اسی موقع کے لئے نازل ہوئی ہوں) وہ بھی اس جماعت کے لئے جس کا عہد حکومت سن 1996 سے لیکر 2001 تک ظلم پر مبنی ہے، تعجب ہے! (اس پر اُس وقت کے دانشوروں کے اسٹیٹمنٹ دیکھے جاسکتے ہیں)
آپ ہزار بار امریکہ کی بربریت اور سفاکیت پر بولیں اور تحریریں لکھیں، لیکن اتنی آسانی سے کسی بھی طرح کی سیاست کو اسلامی رنگ نہ سمجھ لیں سوچیں، سمجھے اور نتائج کا انتظار کریں۔
آپ اس ملک میں ذرا ان سے سوال کریں جو اپنی تقریروں اور تحریروں میں آپ کو نظامِ خلافت اور امارتِ اسلامیہ کا خواب دکھاتے ہیں “آپ کی خلافت کا رخ کدھر ہے؟ کبھی آپ مصر کی جانب خلافت کے آنے کا انتظار کرتے ہیں، کبھی آپ بغدادی کو اپنا امیر کہہ دیتے ہیں کبھی آپ اردگان کو خلافتِ عثمانیہ کا دوسرا مؤسس مان لیتے ہیں اور اب یہ طالبان۔ ان علماء سے پوچھیں کہ آپ کا پروٹوکول کیا ہے کدھر سے آپ کی خلافت نمودار ہوگی اور کب آپ کی جھولی میں گرے گی؟ آپ بات کرتے ہیں خلافت کی جبکہ آپ اپنے علاقہ میں دوسرے مسالک کے مدرسہ کو برداشت کرنے کو تیار نہیں، آپ بات کرتے ہیں خلافت کی آپ کی حالت یہ ہے کہ اپنے مسلک کے علاوہ دوسرے مسلک کے نہ امام کو قبول کرنے کو تیار ہیں نہ اس کا مقتدی بننے کو۔
آپ ان سے پوچھیں کہ پچھلے 75 سالوں میں آپ نے کس میدان میں کام کیا؟ کون سا میدان ہے جس کے بارے میں فخر سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے یہ کیا؟ تعلیم کے میدان میں آپ پھسڈی ہیں، معاش کے میدان میں آپ نیل ہیں، سیاست میں آپ کی گنتی نہیں۔ اس سے بڑھ کر وہ مدارس جس پر آپ فخر کرتے ہیں اس نے پچھلے 25-30 سالوں میں کتنی شخصیتوں کو پیدا کیا؟
آپ ان سے پوچھیئے کہ آپ کہ مدارس میں فراغت کے بعد سند کے نام پر جو کاغذات ملتے ہیں وہ کس کام آتے ہیں؟ وہ تو اس لائق بھی نہیں کہ اس سے آپ کسی سرکاری دفتر میں کوئی کام کروا سکیں۔”
ان سے کہیں کہ خلافت چھوڑیں کم سے کم تعلیمی میدان میں جو مسلم بچوں کا حق ہے اسے ہی بحال کر دیں، وہی کافی ہے۔
آپ مدرسہ میں پڑھنے پڑھانے والے لوگ ہیں قرآن آپ کی نگاہوں میں ہے حدیث آپ کی زبانوں پر ہے، اصول اور فقہ پر آپ کی علمی بنیاد قائم ہے علماء ،محدیثین، فقہاء، شیخ الاسلام، مفکر اسلام، بحر العلوم، مرشد الامہ، قائد ملت، اور شیخ الھند جیسے جواہر آپ کی صحنِ مدارس میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود آپ اتنے جذباتی، اتنے فحش گو، پل بھر میں حواس کھو دینے والے، اختلافِ رائے کو سن کر فوراََ بپھرنے والے، اور غیر اخلاقی تہمت باندھنے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟
کیا آپ نے نہیں پڑھا؟
إنك لعلى خلق عظيم (قرآن)
ترجمہ: اے محمدؐ! آپ بلند اخلاق پر فائز ہیں
کیا آپ نے نہیں پڑھا؟
لم يكن رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ فاحشا ولا متفحشا(متفق علیہ)
ترجمہ: رسولؐ نہ فحش گو تھے نہ بتکلف فحش گوئی کیا کرتے تھے۔
کیا آپ نے نہیں پڑھا؟
إن الله ليبغض الفاحش البذيء (ترمذی)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ فحش اور گھٹیا باتیں کرنے والے سے شدید نفرت کرتا ہے۔
ماشاء اللہ اس سے زیادہ آپ جانتے ہیں، ان آیات اور ان احادیث کو تقریر کا حصہ بنانے سے زیادہ اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے تو وہ انقلاب پیدا ہوگا جس انقلاب کے آپ منتظر ہیں اور جس کی امید میں ادھر ادھر نظریں دوڑا رہے ہیں۔
سیاست ہو یا مسلک دونوں میں اپنی رائے کو حجت نہ مانیں اور نہ کسی دوسرے کی رائے کو غلط کہنے میں جلدبازی سے کام لیں۔ حالات کا جائزہ لیں، حالات کو پڑھیں، پیش آنے والے واقعات وحوادث پر نظر رکھیں اور انکے عوامل پر غور کرکے اس پر اپنے مستقبل کی بنیاد رکھیں۔
اور جتنا ہو سکے اخلاقی اور معاشی طور پر خود کو بنانے کی فکر کریں۔ اس لئے کہ یہی دو راستے ہیں جس سے سماج میں آپ خود کو ثابت کر سکتے ہیں۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ ؕ اِلَی اللّٰہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿سورہ مائدہ آیت 105﴾
اے ایمان والو! اپنی فکر کرو ، جب تم راہ راست پر چل رہے تو جو شخص گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نقصان نہیں پہونچا سکتا، اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے ۔