Click Tv
فیصل نذیر ، ریسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔
دہلی کا نبی کریم علاقہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل اور جاذبِ توجہ ہے، جن خوبیوں اور خامیوں کے لئے ممبئی کا دھاراوی علاقہ مشہور ہے تقریبا وہی ساری خصوصیات یہاں بھی پائی جاتی ہیں، نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے مغرب میں واقع پہاڑ گنج کا علاقہ اپنے بھیڑ بھڑکّے اور دھول دھپّے کے لئے مشہور ہے، یہاں سستے ہوٹلوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے؛ سستے کھانوں اور مزدوروں سے پُر یہ علاقہ سیاحوں کے لئے دلچسپی کا مرکز ہے۔ تاریخ میں یہ علاقہ ’شاہ جہاں آباد‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ مشہور مغل بادشاہ شاہ جہاں (1592-1666ء) نے اسے بسایا تھا۔ آج اس علاقے میں زیادہ تر مسلمان آباد ہیں، تنگ گلیوں اور تاریک راستوں کے درمیاں کارخانوں کا ایک طویل سلسہ ہے، بِہار کی ایک بڑی آبادی اسی علاقے سے اپنا گھر چلاتی ہے اور ان کی خوش حالی کا راستہ ان ہی راستوں سے ہو کر گذرتا ہے۔ کچھ دنوں قبل یہ علاقہ سرخیوں میں تھا کیونکہ عدالت نے اس علاقے کو رہائشی علاقہ مانا اور یہاں کاروبار کرنا قانونا جرم قرار دیا، جس کی وجہ سے برسوں سے وہاں رہ رہے اور زمین وکارخانوں کے مالکوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
دہلی میں نو وارد شخص یا کوئی بھی جب مسلمانوں کی آبادی والے علاقے نبی کریم کے بارے میں سنتا ہے تو اولاً اس کے ذہن میں یہ بات گردش کرتی ہے کہ اس علاقے کا نام نبی کریم کیوں ہے؟ پھر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی کی وجہ سے شاید اسے نبی کریم بولتے ہیں۔ لیکن ایک متجسس ذہن (Curious Mind) جب اس کی تلاش کرتا ہے تو اسے بڑے دلچسپ حقائق معلوم ہوتے ہیں:
محمد بن تغلق (1290-1351ء) جب دہلی کا حاکم بنا اور اس نے پوری زندگی دشمنوں کو مات دینے اور باغیوں کے سر کچلنے میں گذار دی، دار السلطنت منتقل کرنے اور ٹوکن کرنسی ڈھالنے کی غلطیوں کے علاوہ اپنی نیک نامی اور نیک کامی کا رعایا پر سکہ جما لیا، علم دوست اور کئی زبانوں کا ماہر تھا، جس کا ذکر مشہور سیاح ابنِ بطوطہ (1304-1369ء) نے بھی کیا ہے۔ جب تغلق کا انتقال ہوا تو اس کے پاس کوئی نرینہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بھتیجے فیروز شاہ تغلق (1309-1388ء) کی تخت نشینی کی گئی، جسے محمد بن تغلق نے شروع سے اپنے ساتھ رکھا تھا اور پرورش کی تھی اور بالآخر حکومت سونپی۔ فیروز شاہ تغلق ایک نیک دل بادشاہ تھا، تعمیر وتزئین کا دلدادہ تھا۔ اس نے پوری دلّی میں بارہ سو باغیچے بنوائے، نئی عالیشان عمارتیں بنوائیں، قطب مینار کی تزئین کاری ومرمت کروائی، حوض خاص ٹینک کی مرمت کروائی، فیروز آباد شہر بسایا، مؤرخین کہتے ہیں اس کے بعد بادشاہوں میں صرف شاہ جہاں کو ایسا لطیف جمالیاتی ذوق نصیب ہوا۔
فیروز شاہ بڑا ہی خدا ترس بادشاہ تھا، چچا نے اسے یہ ذمہ داری دے دی ورنہ وہ درویش صفت اور مست مولیٰ ، خدا ترس انسان تھا۔ اس نے اپنے لئے ایک مقبرہ اپنی حیات میں ہی بنوایا۔ اس زمانے میں ایک بزرگ تھے سید جلال الدین حسین بخاری مخدوم جہانیان جہاں گشت (1308-1384ء) جو ساری دنیا کی سیر کرتے رہتے تھے، جس کی وجہ سے آپ جہاں گشت کے نام سے مشہور ہوئے، جب وہ حج پر گئے، تو وہاں کے بادشاہ نے انہیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدم ِمبارک کا نقش (Footprint) بطور تبرک و ہدیہ پیش کیا۔
حضرت جہانیانِ جہاں گشت جب دہلی تشریف لائے تو وہ نقش انہوں نے فیروز شاہ تغلق کو دے دیا۔ فیروز شاہ بہت خوش ہوا اور اس نایاب اور مقدس نقش کو اپنے خزانے میں محفوظ کروادیا۔ فیروز شاہ کے بیٹے شہزادہ فتح خان تغلق (1351-1374ء) نے ایک بار کوئی بہادری کا کام کیا، تو فیروز شاہ نے خوش ہوکر اسے خزانے میں سے کوئی بھی اہم چیز لے لینے کا حکم دیا۔ فتح خان خزانے سے وہی نقشِ پائے محمد ﷺ لے آيا جو اس کے والد صاحب نے رکھوایا تھا۔
بیٹے کا حسنِ انتخاب دیکھ کر فیروز شاہ تغلق نے کہا کہ آپ کوئی اور چیز لے لیں یہ میں نے اپنے لئے رکھوایا ہے، یہ سوچ کر کہ میرے مرنے کے بعد یہ مقدس نقش میری قبر پر لگا یا جائے۔ بیٹے نے ضد کی؛ تو معاملہ یہ طے ہوا کہ جس کی بھی وفات پہلے ہوتی ہے اس کی قبر پر یہ لگا یا جائے گا۔ بادشاہ نے سوچا میں سن رسیدہ ہوں، میرا ہی انتقال پہلے ہوگا۔ معاملہ یہاں رفع دفع ہوگیا۔ بد قسمتی سے بیٹے فتح خان تغلق کا ہی انتقال پہلے ہوگیا۔ سب سے بڑے بیٹے اور ولی عہد کے انتقال سے فیروز شاہ بہت دل برداشتہ ہوا اور غموں کا طوفان اس کے سر پر ٹوٹ پڑا، کیونکہ فتح خان سے فیروز کو ایک خاص لگاؤ تھا، اس کی پیدائش اسی دن اور دورانِ سفر ہوئی جب فیروز حکومت سنبھالنے کے لئے ٹھٹھ (حالیہ پاکستان) سے دہلی کے لئے چلے تھے، اس کی ولادت کی خوشی میں پنجاب کے شہر ’اکدار‘ کا نام ’فتح آباد‘ رکھا گیا۔
بھائیوں میں سب سے بڑا اور سمجھ دار تھا، اور کئی جنگوں میں اپنی بہادری کے سکّے جما چکا تھا، صرف سات سال کی عمر اپنے والد کے ساتھ بنگال میں جنگ کے محاز پر گیا، اور دو سال بعد پھر بنگال کی جنگ میں والد کا ساتھ دیا اور بہادری کے ہنر دکھائے، اسی سفر میں فیروز شاہ نے اسے اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔ جون پور سے لکھنوتی، بنگال کی طرف فوج کے ساتھ کوچ کرتے وقت فیروز شاہ نے اسے شاہی خلعت سے نوازا اور حکم دیا کہ فتح خاں کے نام سے سکے ڈھالے جائیں۔
اس کے انتقال کے بعد حسبِ وعدہ بادشاہ نے وہ نقشِ پائے رسول ﷺ فتح خان کی مرقد پر لگانے کا حکم دیا، اور جو مقبرہ اس نے اپنے لئے بنوایا تھا اس میں فتح کو دفن کیا گیا۔ اور اس پر تبرکاً وہ مقدس نقشِ پا لگوایا گیا، اور خود فیروز شاہ تغلق حوض خاص میں مدفون ہوئے، جہاں آج بھی ان کی قبر موجود ہے۔ اس طرح وہ مزار ’قدم شریف‘ اور ’درگاہِ قدمِ رسول‘ کے نام سے مشہور ہوا اور اس پورے علاقے کو ’نبی کریم‘ کہا جانے لگا۔
سعدیہ دہلوی اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتی ہیں کہ تغلق دورِ حکومت کے اختتام کے بعد کے دور میں بھی قدم شریف کا مزار لوگوں کے لئے اہمیت کا حامل رہا، اور یہاں لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ تاریخ کے سابق صدر اور ہیومینیٹیز فیکلٹی کے سابق ڈین پروفیسر عزیز الدین ہمدانی کا کہنا ہے کہ اگر چہ مشہور مؤرخ ضیاء الدین برنی (1285-1357ء) اور مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اس مزار کا ذکر نہیں کیا، اور خود فیروز شاہ تغلق کی سوانح حیات ’تاریخِ فیروز شاہی‘ میں بھی اس کا ذکر موجود نہیں ہے، مگر دیگر مصادر و مراجع یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ مزار مرجع الخلائق رہا ہے۔ سر سید احمد خاں (1817-1898ء) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’آثار الصنادید‘ میں بتفصیل اس مزار کا ذکر کیا ہے اور نقوش اور تصویروں کے ذریعے اس کا مکمل جائے وقوع بتایا ہے۔ سر سید مکمل تفصیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”قدم شریف یا مقبرہ فتح خان: یہ درگاہ بہت نامی اور درحقیقت یہ مقبرہ ہے شاہزادہ فتح خان بن فیروز شاہ کا جبکہ 677 ہجری مطابق 1374 عیسوی کے شاہزادہ فتح خان نے انتقال کیا تو اسکی لاش یہاں دفن ہوئی اور فیروز شاہ نے اسکے گرد مکانات اور مدرسہ اور مسجد بنائی اور چار دیواری کے پاس ایک بہت بڑا حوض بنوایا کہ اب تک موجود ہے جناب پیغمبر خدا ﷺ سے ایک معجزہ ہوا تھا کہ اسکے سبب پتھر پر نقشِ قدم پڑ گئے تھے چنانچہ اکثر کتابوں میں یہ مذکورہے، مشہور ہے کہ انھیں نقش قدم کے پتھروں میں کا ایک پتھر فیروز شاہ کے عہد میں آیا اور اسنے وہ پتھر بطور تبرک اپنے بیٹے کی قبر پر لگا دیا اور اسی سبب سے یہ مقبرہ قدم شریف کے نام سے مشہور ہوا اس قبر پر حوض بنا دیا ہے اور اوسکے گرد سنگ مرمر کا کٹہرا لگایا ہے اسمیں پانی بھرتے ہیں اورنقش قدم کو دھو کر پانی کا تبرک لے جاتے ہیں اور زبان حال سے یہ شعر پڑھتے ہیں:
اے خضر دل اسی کے پیے سے نجات ہے
پانی قــــدم شــریــف کا آبِ حیـات ہے
بارھویں ربیع الاول کو ہر سال یہاں بہت بڑا میلا ہوتا ہے، تمام خلقت جمع ہوتی ہے اور ہزاروں ملنگ آتے ہیں اور دروازے کے آگے دھمال کرتے ہیں“۔ (آثار الصنادید، ص 302)
مغلیہ دورِ سلطنت میں بھی اس مزار کی ایک خاص معنویت تھی، اور شاہ جہاں و دیگر بادشاہوں نے اس کی توسیع وتزئین کاری بھی کی، اورنگ زیب (1618-1707ء) کے عہد میں جب ڈاکو اور قزاقوں کی بدمعاشیاں بڑھ گئی تھی تو یہاں پر پانچ سو چوروں اور راہزنوں کو پھانسی دی گئی تھی، یعنی یہ مقام تقدس وعبرت اور عوامی مجلس کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ایطالوی سیاح و مؤرخ نکولاو منوچی(1638-1717ء) مغلیہ سلطنت پران کا سفر نامہ اہم تاریخی دستاویز مانا جاتا ہے وہ لکھتے ہیں:
”جشن وتہوار کے بعد بادشاہ اورنگ زیب نے چوروں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، جب ان کی گرفتاری ہوئی تو ان کی تعداد پانچ سو تھی، اور ان کو قدم شریف کے قریب پھانسی دے دی گئی، اور اس مقام کو قدمِ رسول بھی کہا جاتا تھا۔ اس جگہ پر پیغمبر محمد کے قدموں کے دو نشان موجود تھے اور لوگ اس کی بڑی تعظیم کیا کرتے تھے“۔ (مغل انڈیا،چوتھی جلد، طباعت اول 1907ء)
انگریز بھی اس جگہ کے تقدس واحترام سے واقف تھے، تقسیمِ ہند کے و قت اس محلے سے اکثر لوگ ہجرت کر گئے اور یہ مرقد بے توجہی کا شکار رہا، لوگ اسے بھول سے گئے، جو کچھ لوگ یہاں رہ گئے تھے وہ بیچارے اپنے وجود اور تشخص کی تلاش میں سرگرداں تھے، ایک مزار و تبرک کو کہاں تک سنبھالتے۔ پھر آزادی کے بعد اس علاقے میں ایسی بے ہنگم، بے ترتیب وغیر منظم آبادی کا سیلاب آیا کہ یہاں کی فلک بوس عمارتوں کے درمیان یہ مزار مکمل بے اعتنائی کا شکار ہوگیا، کہیں دب گیا اورلوگ اسے بھول گئے۔ آج افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کثیر مسلم آبادی والے علاقے میں وہ مزار اس قدر بے توجہی کا شکار ہے کہ کسی کو معلوم تک نہیں کہ اس کی تاریخ و افادیت کیا ہے، عمارتیں بوسیدگی کا شکار ہے، نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر واقع یہ مقدس و تاریخی مقام گمنام ہوگیا ہے اور غیر قانونی قبضوں کے بیچ یہ تاریخی وتہذیبی ورثہ کہیں دب سا گیا ہے۔ اس مقبرہ فتح خاں تغلق کی حالتِ زار دیکھ کرتمام زائرین کو شہزادی زیب النساء مخفی (1638-1702ء) کا یہ مشہور شعر یاد آتا ہے:
بر مزارِ ما غریباں، نے چراغے، نے گُلے
نے پرِ پروانہ سوزد، نے صـدائے بلبلے