بہار کے مسلمانوں کے سیکولر تشخص کی آزمائش اپنی الگ پارٹی نہ بنانے والے مسلمان مسلم پارٹیوں سے کتنے متاثر ہوں گے؟-اشہر ہاشمی

0
275


بہار کے مسلمان فرقہ پرست نہیں۔ ان کے یہاں علٰحدگی پسندی کا کوئی جذبہ نہیں ملتا۔ وہ سیاسی اعتبار سے اصل دھارے کی قومی اور ریاستی سیاسی پارٹیوں کو ہی اپنی امیدوں اور امنگوں کی تکمیل کا مرکز سمجھتے ہیں۔ اس لئے ریاست کی آبادی میں تقریباً 20فیصد ہونے کے باوجود بہار کے مسلمانوں نے اپنی کوئی الگ مسلم سیاسی پارٹی تشکیل کرنے کی غیر دانشمندانہ حرکت کبھی نہیں کی۔جبکہ تلنگانہ /آندھرا، اتر پردیش اور کیرالہ کے مسلمان اپنی الگ سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کر چکے ہیں۔
بہار کے مسلمانوں کے اصل دھارے کی سیاست میں برقرار رہنے کے اس جذبے کا احترام ریاست کی سیاسی پارٹیوں کو بھی کرنا چاہئے، قومی پارٹیوں کو بھی اور بیرون ریاست کی ان پارٹیوں کو بھی جو مذہب کی اور علاقائی ضرورتوں کی بنیاد پر تشکیل کی گئی ہیں۔ لیکن باہر سے آئی ہوئی سیاسی پارٹیاں مسلم نوجوانوں میں ہیجان پیدا کرنے اور اصل دھارے سے انہیں کاٹ کر مذہب کی بنیاد پر سیاسی پہچان قائم کرنے کی طرف مائل کر رہی ہیں۔ جن علاقوں میں تعلیم اور تموّل ہے وہاں شاید انہیں کامیابی کم ملے۔ مگر جہاں غریبی ہے، تعلیم کی کمی ہے، ترقیاتی کام نہیں ہوئے،تکلیف ہے،سیاسی فکر بالیدہ نہیں اور دنیا کی سمجھ میں کوئی کمی ہے وہاں ان پارٹیوں کو ہیجان پھیلانے اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں تھوڑی بہت کامیابی مل جائے تو حیران ہونے کی بات نہیں۔
تلنگانہ سے مجلس اتحاد المسلمین بہار کے انتخابی دنگل میں کودی ہوئی ہے۔ کیرالہ سے ایک تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI)کی سیاسی شاخ سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI)نے بھی بہار کو ایک نرم نشانہ سمجھ کرانتخابی میدان میں اپنا لوہا پھینک دیا ہے۔
کیرالہ اور کرناٹک میں SDPIکی سرگرمیوں سے سب واقف ہیں۔ ان ریاستوں کے باہر اس پارٹی کی نہ کوئی عوامی اپیل ہے نہ نظریاتی بنیاد جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسی سال دہلی اسمبلی کے انتخابات میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت والے حلقہ اوکھلا میں SDPIکے امیدوار کو صرف 24ووٹوں پر قناعت کرنی پڑی۔ بہار میں لوگ اس پر حیران ہیں کہ 24ووٹوں کی پارٹی اس ریاست کے +240حلقوں پر کیا اثر دکھا سکتی ہے؟لیکن اثر تو ڈالے گی، نوجوانوں کی سیاسی فکر اور سیکولر مزاج پر۔ کیونکہ اس کی نیت ہیجان پھیلانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی ہے۔
مجلس اتحاد المسلمین یہاں ادھر کچھ برسوں سے سرگرم ہے۔ گذشتہ یعنی 2019کے لوک سبھا انتخابات میں کشن گنج حلقے سے مجلس نے ایک نمایاں سیاسی کارکن اخترالایمان کو اپنا امیدوار بنایا تھا۔ انہوں نے 2لاکھ سے زائدووٹ بھی حاصل کئے تھے۔ کشن گنج کے مسلمانون کا کہنا ہے کہ اخترالایمان کی اپنی ایک الگ سیاسی پہچان ہے،وہ بہت دنوں سے سیاست میں سرگرم ہیں، اسمبلی کے انتخابات جیت چکے ہیں۔ وزارت میں بھی رہے ہیں اور مقامی سیاست سے وابستہ رہ کر انہوں نے اپنی ایک نمایاں جگہ بھی بنائی ہے۔ 2019میں مجلس کے امیدوار کی حیثیت سے جو ووٹ اخترالایمان کو ملے وہ مجلس کے ووٹ نہیں گنے جا سکتے، وہ اخترالایمان کی ذاتی پہنچ اور تعلق کی بنیاد پر بھی ان کے حصے میں آئے۔ مجلس نے لوک سبھا الیکشن گزرنے کے بعد بھی کشن گنج اسمبلی حلقے کا ضمنی انتخاب جیتا ہے۔ اس طرح بہار اسمبلی میں اسے نمائندگی حاصل ہوگئی ہے۔ ورنہ سیمانچل کی 24سیٹوں میں سے بقیہ سیٹوں پر اصل دھارے کی قومی اور ریاستی پارٹیاں قابض ہیں۔اس بار بھی مجلس بہار میں الیکشن لڑ رہی ہے۔ اس کی انضمام اور اشتراک کے درمیان تفریق کی سیاست کا ایک نیا روپ اپندر کشواہا اور مایاوتی کی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہ اتحاد اپنی زبان سے بہت کچھ بول رہا ہے۔ مجلس کو اس کا یقین نہیں کہ وہ اپنے دم پر بہار میں خاص کر سیمانچل میں،جسے اس نے تاک رکھا ہے،کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے گی۔ اس اتحاد سے یہ بھی نکل کر سامنے آیا کہ مجلس اپنے مسلم چہرے پر سیکولر مکھوٹا ڈالنے کی خواہش مند ہے۔ SDPI۔PFIاور مجلس اتحاد المسلمین کس ایجنڈا کی تکمیل کی تیاری میں ہیں یہ سمجھنا مشکل ہے۔ اگر ان کا مقصد اپنے سیاسی اثرات کا پھیلاؤ ہے تو بھی کئی سوالات ابھرتے ہیں۔

یہاں اس کا ذکر ہوجانا چاہئے کہ مجلس اتحاد المسلمین اس سے پہلے بھی ہندوستان میں اپنی موجودگی کا اندراج کرانے کی خواہش مند تھی۔ 1982کے مغربی بنگال اسمبلی الیکشن میں مجلس اتحاد المسلمین نے کلکتہ شہر میں مسلمانوں کی خاصی آبادی والے بو بازار اسمبلی حلقے سے تب کے ہر دلعزیز لیڈر کامریڈ ابوالحسن کے خلاف شوکت علی نامی ایک نوجوان کو امیدوار بنایا تھااور اس کی حمایت میں انتخابی مہم چلانے کے لئے خود کلکتہ کی سڑکوں پر گھوم رہے تھے۔ سلطان صلاح الدین اویسی نے اب سے تقریباً 4دہائیاں قبل حیدرآباد سے باہر نکل کر مسلمانوں کی سیاسی پہچان قائم کرنے کی بات کی تھی اور اس کا عملی مظاہرہ مجلس نے اب کیا ہے مگر اس بیچ اتنا وقت گزر چکا ہے کہ ہندوستان میں سیاست کا چہرہ یکسر بدل چکا ہے۔ البتہ مجلس کے2 ممبران لوک سبھا میں ہیں اور تلنگانہ اسمبلی میں بھی اس کے7 ممبران ہیں، اس کے علاوہ مہاراشٹراسمبلی میں بھی اس کے 2 ممبران ہیں۔اوپر بہار اسمبلی کے1 ایک ممبر کا ذکر آ چکا ہے۔
سیمانچل میں اسمبلی کی 24سیٹیں ہیں جہاں مسلمان بھاری تعداد میں ہیں۔ یہ علاقہ آزادی سے اب تک تمام مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے مسلسل نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے کافی پسماندہ ہے۔ بیشتر لوگ غریب،تنگ دستی کے شکار،موسم کا عذاب جھیلنے پر مجبور اور سیلاب میں چچڑی پل سے گزرنے کی اذیت میں مبتلا ہیں۔ وہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ دینی تعلیم اور جدید تعلیم دونوں کی طرف مسلمان مائل ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی)، مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ)مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی(حیدرآباد)،جے این یو (نئی دہلی)میں تعلیم مکمل کر کے واپس اپنے علاقے میں آنے والے طلبااس علاقے میں بیداری کی لہر لا رہے ہیں۔اور یہی امید کی کرن ہے کہ شخصیت پرستی اور مذہب کی بنیاد پر ورغلانے اور بہکانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی اور بہار کا مسلمان اپنے سیکولر تشخص کی حفاظت کر سکے گا۔
(مضمون نگاردہلی میں مقیم سرکردہ اردو صحافی اور مصنف ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here