(جہاں گیر عادل)
مسلم اداروں پر قبضہ کیلئے جدوجھد کی کہانی اب عام ہو چکی ہے۔ اس جد و جہد میں جب تک خدمت کے جذبے کی تکمیل کا عنصر شا مل ہے اسے مبارک سمجھا جائے گا اور ایسی کسی جدو جہد میں اُس فریق کے خیالات کی تائید کی جا سکتی ہے جس کے پاس خدمت کے جذبے کے ساتھ دانش کی دولت اور آگے کی منصوبہ بندی کی اہلیت ہو ۔ ابھی کے حالات میں مسلم تنظیموں کی داخلی رسہ کشی کی وارداتیں بڑھی ہوئی ہیں اور بعض صورتوں میں تشدد کے کیس بھی واقع ہوتے ہیں۔ کلکتہ کے مسلم اداروں کے حالات چشم کشا ہیں مگر دوسروں کے علاوہ امارت شرعیہ بہار بنگال جھارکھنڈ اڑیسہ کا معاملہ بھی دھیرے دھیرے تشویش ناک ہو گیا ہے۔ وہاں بیک وقت تین گروپ مرحوم مولانا سید محمد ولی رحمانی کی بطور امیر _ شریعت جانشینی کیلئے میدان میں کود ے ہوئے ہیں اور اپنے طور پر تمام سیاسی ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں جن میں جھوٹ کا پرچار اور گمراہ کرنے کی کوشش نمایاں ھے۔ کچھ لوگ ملت کے فرزندوں کی حاوی یا غالب رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں ہیں اور اس کیلئے جھوٹ کا پورا کارخانہ لگا لیا گیا ہے۔
امیر _ شریعت کے عہدے کے ایک اور امیدوار مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ہیں جو اذاں پکارنے کی مخالفت میں اپنا بیان دے کر سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کی ایک کوشش کر چُکے ہیں ۔ انہیں تی آر ایس حکومت میں حیدرآباد شہر کی مسجدیں گرانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ آج تک اُن کی زبان سے نہ جانے کس مصلحت یا مجبوری کی بنا پر سرکاری حکم سے قدیم اور جدید مسجدیں منہدم کرنے کے خلاف ایک لفظ نہیں نکلا جب کے وہ نہ صرف شہر میں سکونت گیر ہیں بلکہ اُنہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک اہم عہدیدار کی حیثیت سے موقف فرض سمجھ کر اختیار کرنا چاہیے تھا۔ سیف اللہ رحمانی کو شہر پٹنہ کے کچھ سرگرم لوگوں کی تائید حاصل ہے اور وہ ہر حال میں اُنہیں امیر _ شعریت بنانا چاہتے ہیں۔ اُس گروپ کو سيف اللہ رحمانی کے امیر ،_ شریعت بننے سے کیا فائدہ ہوگا اور انکا اس میں کیا مفاد ہے یہ بات تحقیق طلب ہے مگر جس شدت سے حمایت کرتے ہوئے پرچار اور رائے سازی کے تمام اصول پائمال کئے جا رہے ہیں اُس سے لگتا ہے کہ معاملہ سادہ تائید سے آگے کا ہے۔ امیر _ شریعت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی آرزو یہ سب کرا رہی ہے جب کہ معلوم ہے کہ اس عہدے پر منتخب ھو گئے تو سیف اللہ رحمانی بھی کسی ناجائز بات کی حمایت سے گریز کرنے پر مجبور ہوں گے۔سابق ناظم عمومی مولانا انیس الرحمٰن کی اپنی الگ کوشش ہے کہ امیر شریعت کے عہدے پر جلوہ افروز ہوں۔ اُن کا سابقہ ریکارڈ بالکل صاف نہیں ہے۔
ادھر ایک حلقہ مرحوم امیر _ شریعت کے فرزند مولانا فیصل ولی رحمانی کو اپنے لائق والد کا جا نشین بنانا چاہتا ہے ۔شہری معاشرہ کو اس لئے حرکت میں آنا چاہیئے کہ ان گروہوں کے درمیان رسہ کشی ملت میں افتراق کا باعث بننے سے رہ جائے۔ملک بھر کے کچھ چیدہ مسلمان اس سلسلے میں ضرور پہل کریں اور تینوں میں سے کسی کی طرف پہلے سے جھکے رہنے سے گریز کر کے اہلیت کی بنیاد پر تینوں کی امیدوار ی کا جائزہ لیں اور اس پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ ملت کے مفاد میں کسی ایک ، زیادہ اہل امیدوار کو بلا مقابلہ امیر چنا جائے۔امارت شرعیہ کا امیر کیسا ہونا چاہیئے اس پر زبردست گندی سیاست ہو رہی ہے جسمیں کئ گروہ ہے اور سب کی رائے اپنے مفاد کے حساب سے مختلف ہے۔ایک گروہ کا خیال ہے کے امیر ایسا یو جو ہمیں امارت کے اندر ہمارے مشورے کو ملحوظ رکھے اور بڑے سیاست دانوں کے یہاں بھی ہمارا اثر و رسوخ برقرار رکھنے میں مددگار بھی ہو۔
ایک طبقہ سوچتا ہے کہ امیر ایسا ہو جسکا “امیر” اس کے حامیوں کا ٹولہ ہو اور اس کا رعب و دبدبہ منتخب امیر شریعت پر پر سایہ فگن رہے۔
ایک تیسرا ایماندار اور مخلص طبقہ یہ چاہتاہے کہ امیر ایسا ہو جو سب کی بالا دستی سے اوپر انصاف پسند، خدمتِ خلق کے جذبہ سے سرشار، وسیع النظر ہو اورجو صرف علم دین ہی نہیں بلکہ دنیا کے علم و فنون میں بھی مہارت رکھتا ہو ، صرف علمی بحث اور فقہ تک محدود نہ ہو بلکہ دنیا کے ہر نشیب و فراز پہ نظر رکھتا ہو اور نہ صرف قومی سطح پہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پہ تسلیم شدہ حیثیت کا مالک ہو۔ امیر ایسا نہ ہو جس کی آنکھوں کے سامنے مسجدیں منہدم کردی جائیں اور وہ خاموش رہے۔ جو شخص بابری مسجد کے معاملہ میں لب کشائ نہ کر سکا ہو ، مسلمانوں پہ مظالم ڈھائے جانے پہ خاموش رہا ہو، وہ اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف زبان کھولنے سے گریز کر گیا ہو۔اس معاملے میں ملت نے دیکھا اور میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ فیصل ولی رحمانی کے اندر وہ جرات،حق گوئ اور بیباکی ہے جو شاید چندے لوگوں کے اندر موجود ہوتی ہے۔کرونا میں جب سب مسجدیں مقفل تھیں تو ملک کے بڑے بڑے علماء نے حکومت کے حق میں فتوی صادر کیا مگر یہی فیصل رحمانی تھےجنہوں نے حکومت سے یہ سوال پوچھا تھا کہ مسجدیں کب تک بند رہیں گی اور حکومت کو ایک میمورنڈم بھی دیا تھا۔
آخر میں ایک تاریخی جملہ جو حضرت محمد ولی رحمانی رحہ نے جابر حکومت کو کہا ” معاف کیجیئے گا سرحد تو سنبھل نہیں رہا ہے اور آپ اندرونِ ملک خلفشار چاہتے ہیں ” آپ ہمدردان ملت اور دانشوران ملت خود فیصلہ کریں کے جنکی تربییت ایک حق پرست، خدا ترس اور خدمت خلق کے جذبہ سے سر شار والد محترم کے سایہ میں ہوئی ہو وہ ملت کے لیئے ہر حال میں سودمند اور امارت شرعیہ جیسے اداروں کے لئے بہترین ثابت ہونگے۔جنکے پاس تدریس اور انتظام وانصرام کا صرف قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی تجربہ بھی ہے۔ دانشورانِ ملت آپ اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچیں اور اللہ کو حاضر و ناظر کرکے فیصلہ کریں۔ورنہ روزِ قیامت جوابدہ ہونا پڑے گا۔
(مضمون نگار انڈیا اگینسٹ وسٹیج آف ویلڈ ووٹس کے کنوینر ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here